حق خودارادیت. Right of self determination


:محمد شاکر 
جہاں تک لفظ"حق خودارادیت" self determination کا تعلق ہے۔ اس کا مطلب بین الا قوامی طور پر مسلمہ یہ ہے کہ ایک قوم اگر غلام ہے یہ کوئ قوم کسی دوسری قوم کے ساتھ کسی تعلق کے بغیر رہنا چاہتی ہے تو حق خود ارادیت کے تحت ایسی قوم آزادانہ فیصلہ کرے اور یہ فیصلہ ان دو باتوں کے متعلق ہوتا ہے،کہ وہ قوم مکمل طور پر خودمختار رہنا چاہتی ہے۔ یا کسی قوم کے ساتھ الحاق کرنا چاہتی ہے۔مگر کشمیریوں کے لیئے الفاظ کی تشریح بھی الٹی کی جاتی ہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے بھارت یا پاکستان بس اور کوئ راستہ نہیں۔ حالانکہ اس وقت بین الا قوامی طور پر یہ لفظ مکمل خود مختاری کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے۔جب حق خودارادیت کسی قوم کا تسلیم کر لیا جائے تو پھر اس کا اصل مفہوم سے ہٹ کر کوئ مطلب نہیں لیا جاسکتا۔ بین الا قوامی طور پر حق خود ارادیت کی تعریف و تشریح انتہائ واضح ہے۔ "حق خودارادیت سے مراد کسی قوم کی وہ قوت ہے،جس کے تحت وہ بغیر کسی بیرونی دباو کے،آزادانہ مرضی سے،اپنی حکومت اور دوسرے ممالک کیساتھ سیاسی تعلقات کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے"۔ 
شارٹر آکسفورڈ انگلش ڈکشنری جلد دوم 1933 پر تحریر تعریف کے مطابق "حق خودارادیت سے مراد کسی ریاست یا کمیونٹی کا خودمختاری پر مبنی اپنی حکومت قائم کرنے سے متعلق وہ حق ہے جس کا اظہار وہ اپنی پسند، ذہن اور مرضی سے کر سکتی ہے"۔
آکسفورڈ انگلش ڈکشنری سپلیمنٹ 203 کے مطابق " کسی قوم کا اپنی سوچ کے مطابق اور مرضی سے خود اپنی حکومت کے قیام سے متعلق آزادانہ اقدام خودارادیت کہلاتا ہے"۔
آمان اللہ خان لکھتے ہیں۔"قوموں کا حق خودارادیت نہ محدود کیا جاسکتا ہے اور نہ مشروط نہ مقید۔ عملی نقطہ نظر سے اس سے مراد خودمختاری ہے"۔
کیا حق خودارادیت تسلیم کر لینے کے بعد پاکستان یہ دعوی کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ کشمیر کو اپنا حصہ جتائے اور کیا یہ ممکن ہے کسی علاقے کے لوگوں یا کسی قوم کا ایک بار حق خودارادیت تسلیم کر لینے کے بعد اسے بدلا جاسکتا ہے۔ وہ علاقہ پہلے کسی ملک کا حصہ ہی کیوں نہ رہا ہو۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے حق خودارادیت تسلیم کر لینے کے بعد پاکستان یا بھارت یا کسی بھی تیسرے ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کشمیر کو اپنا علاقہ شمار کرے۔ یہ انسانی حقوق کی پامالی ہی نہیں بین الا قوامی اصولوں اور وعدوں کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں اگر کشمیر پاکستان کا حصہ تھا تو پھر مسلہ اقوام متحدہ میں کیوں لے جایا گیا اور وہاں کشمیریوں کا حق خودارادیت کیوں تسلیم کیا گیا تھا۔ حق خودارادیت تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ یہ قوم یا اس علاقے کے مکیں ہمارے ملک کا حصہ نہیں ہیں۔ اگر کشمیر پاکستان کا حصہ تھا تو پھر سوچ کر قدم اٹھانا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تقسیم ہند کے اصولوں کی تشریح بھارت اور پاکستان اپنے انداز میں کرتے ہیں۔اگر بلفرض محال اس قانون کے تحت کشمیر پاکستان کا حصہ بنتا ہے تو بھی اب ہم یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اس لیئے کہ حق خودارادیت تسلیم کر لینے کے بعد پاکستان اپنے اس مطالبہ سے قانونی طور پر دستبردار ہو گیا ہے۔
پھر ایک بات اور بھی ہے۔اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ کشمیر آئنی طور پر 1947  میں پاکستان کا حصہ بن گیا تھا تو پھر وہاں حق خودارادیت یا رائے شماری کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چائیے تھا۔ کیونکہ اس صورت میں ہمارا نظریہ یہ ہوتا کہ کشمیر بھی ویسا ہی بھارتی مقبوضہ علاقہ ہے جیسے 1971 میں شکر گھڑ کے کچھ حصے مگر یہ حقیقت نہیں ہے اور شکر گھڑ کے کچھ حصے یا سندھ میں بھارتی مقبوضہ علاقہ کی پوزیشن بالکل مختلف ہے اور ان علاقوں میں رائے شماری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستان کو اس بات کا حق ہے کہ ان علاقوں کو بزور شمشیر حاصل کر لے۔ لیکین کشمیر کو بزور شمشیر حاصل کر لینے سے بھی مسلہ حل نہیں ہوگا۔ ایک بار مستقبل کے تعلقات یا ہمسایہ ملکوں سے مراسم کا فیصلہ وہاں کے لوگوں کی خواہشات اور مرضی کے مطابق طے کرنا پڑے گا۔

Comments

Popular posts from this blog

UNHRC Failure about Pakistani atrocities against Gilgit Baltistan. BNF

Gilgit: Schedule-four list released, More than 38 activists placed including Shokoor Khan Adv from Ghizer.