Posts

Showing posts from September 23, 2018

گلگت بلتستان کا مقدمہ اور سپریم کورٹ کا فیصلہ

Image
انجینئرمنظور پروانہ  گلگت بلتستان کی آئینی حقوق کا مقدمہ ایک بار پھر پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہے ، اس عدالتی کاروائی سے گلگت بلتستان کے عوام کی اکثریت بڑی امید یں وابستہ کئے بیٹھی ہیں۔گلگت بلتستان کا اصل کیس تو اقوام متحدہ میں تنازعہ کشمیر نام سے زیر سماعت ہے تا ہم یہ مقدمہ پاکستان اور آزاد کشمیر کی عدالتوں میں بھی چلتا رہا ہے اور عدالتوں نے جوفیصلے صادر کئے ہیں ، وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان اپنی تاریخی فیصلہ28 اپریل1999ء میں صفحہ نمبر 42 پر حکم صادر کرتا ہے کہ "گلگت بلتستان جغرافیائی لحاظ سے ا نڈیا ، چین تبت ، روس کے درمیان ایک انتہائی حساس خطہ ہے ، یہ عدالت فیصلہ نہیں کر سکتی کہ گلگت بلتستان کو کس طرح کی حکومت د ینی چائیے کیونکہ اس بات کی آئین پاکستان اجازت نہیں دیتی،اور نہ ہی ہم ہدایت دے سکتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے کیونکہ یہ ملک کے عظیم تر مفاد میں نہیں در اصل یہاں اقوام متحدہ کے زیر نگراں رائے شماری ہونا ہے"۔آگے یہ بھی حکم کرتا ہے کہ"ناردرن ایریاز ریاست جموں و کشمیر

گلگت بلتستان کا آئینی مقدمہ اور خفیہ دستاویزات کیا ہیں ؟؟؟

Image
تحریر: احسان علی ایڈوکیٹ اگلے روز سپریم کورٹ میں گلگت بلتستان اور پاکستان کے درمیان آئینی تعلق کے تناظر میں جی بی گورنمنٹ آرڈر 2018ء کو غیر آئینی اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم قرار دیکر یہاں ایک آئین ساز اسمبلی قائم کرنے اور اور ایک بااختیار آئینی عدالتی نظام کیلئے دائر مختلف آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم فل بنچ نے جب اٹارنی جنرل پاکستان سے وفاق پاکستان کی طرف سے موقف پیش کرنے کو کہا تو اٹارنی جنرل نے حسب روایت تاخیزی حربے کے طور پر عدالت پہ دباو ڈالنے کے انداز میں کہا کہ اسکے پاس بعض ایسی خفیہ دستاویزات ہیں جو وہ کھلی عدالت میں نہیں دکھا سکتےانہیں وہ چیمبر میں دکھائےگا ان خفیہ دستاویزات کو دیکھنے کے بعد عدالت جی بی کے مقدمے کا فیصلہ کر لیں اٹارنی جنرل کے بیان میں درپردہ ایک دھمکی تھی کہ عدالت وفاق کی مرضی کے بغیر جی بی کی آئینی پوزیشن سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی مگر عدالت نے اس مضحکہ خیز تاخیزی حربے پہ آٹارنی جنرل کی کوئی سرزنش نہیں کی یہاں تک کے درخواست دہندگان کے وکلاء میں سے بھی کسی نے اٹارنی جنرل کے ان نام نہاد "خفیہ دستاویزات&