گلگت بلتستان کا مقدمہ اور سپریم کورٹ کا فیصلہ


انجینئرمنظور پروانہ 

گلگت بلتستان کی آئینی حقوق کا مقدمہ ایک بار پھر پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہے ، اس عدالتی کاروائی سے گلگت بلتستان کے عوام کی اکثریت بڑی امید یں وابستہ کئے بیٹھی ہیں۔گلگت بلتستان کا اصل کیس تو اقوام متحدہ میں تنازعہ کشمیر نام سے زیر سماعت ہے تا ہم یہ مقدمہ پاکستان اور آزاد کشمیر کی عدالتوں میں بھی چلتا رہا ہے اور عدالتوں نے جوفیصلے صادر کئے ہیں ، وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان اپنی تاریخی فیصلہ28 اپریل1999ء میں صفحہ نمبر 42 پر حکم صادر کرتا ہے کہ
"گلگت بلتستان جغرافیائی لحاظ سے ا نڈیا ، چین تبت ، روس کے درمیان ایک انتہائی حساس خطہ ہے ، یہ عدالت فیصلہ نہیں کر سکتی کہ گلگت بلتستان کو کس طرح کی حکومت د ینی چائیے کیونکہ اس بات کی آئین پاکستان اجازت نہیں دیتی،اور نہ ہی ہم ہدایت دے سکتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے کیونکہ یہ ملک کے عظیم تر مفاد میں نہیں در اصل یہاں اقوام متحدہ کے زیر نگراں رائے شماری ہونا ہے"۔آگے یہ بھی حکم کرتا ہے کہ"ناردرن ایریاز ریاست جموں و کشمیر کا آئینی حصہ ہے، حکومت پاکستان چھہ مہینوں کے اندر یہاں بنیادی حقوق،سیاسی اور انتظامی اداروں کی فراہمی کو یقینی بنائیں ، اس طرح کے اقدام سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی موقف پر کوئی فرق نہیں پڑنا چائیے " 
گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر آزاد کشمیر ہائی کورٹ نے ملک مسکین اور حاجی بشیرکی درخواست پر185 مارچ1993 ء کو اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ "گلگت بلتستان آزاد کشمیر کا تاریخی اور آئینی حصہ ہے ، آزاد کشمیر حکومت یہاں انتظامی ادارے قائم کرے"۔حکومت آزاد کشمیر نے اس عدالتی حکم کو آزاد کشمیر سپریم کورٹ میں چیلینج کیا تھا۔ آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے 14 ستمبر 1994ء کو اپنے فیصلہ میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ" گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے لیکن آزاد کشمیر کا حصہ نہیں ہے ، اس لئے آزاد کشمیر حکومت کو گلگت بلتستان کو اپنی انتظامی کنٹرول میں لینے کی ضرورت نہیں"۔
گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی حصہ و صوبہ بنانے کے بارے میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد 30 مارچ1951 ء میں پاکستان اور انڈیا نے اس بات کو قبول کرکے د ستخط کئے ہیں کہ "پاکستان اور انڈیا کی اسمبلیوں کو ریاست جموں و کشمیر کی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا"۔ قابل غور حقیقت یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر اور جموں و کشمیر کی اسمبلیوں کو بھی پاکستان یا انڈیا سے الحاق کا حق حاصل نہیں ہوگا اور اسی طرح گلگت بلتستان کی این سی پی (Non Constitutional Province) اسمبلی کو بھی کسی سے الحاق کا حق حاصل نہیں ہے۔ جب تک مسئلہ کشمیر عالمی عدالت میں زیر التواء رہے گا پاکستان گلگت بلتستان کو آئینی حصہ نہیں بنا سکتی ہے اسی طرح انڈیا،لداخ ، جانجینئرمنظور موں ،اودھم پور اور کاتھواہ کو اپنا حصہ نہیں بناسکتی ہے۔ 
اس بار عدالتی فیصلہ آئین پاکستان میں ترمیم لائے بغیر گلگت بلتستان کو نئے آرڈر کے ذریعے عبوری انتظامی سیٹ اپ دینے یا 1999 ء کی عدالتی حکم نامہ پر عمل درآمد پر آسکتی ہے ۔ اگر گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا مسئلہ پاکستان مےآئینی طور پر ضم ہونے کی صورت میں حل ہوتا ہے تو تنازعہ کشمیر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی اور اس کا کریڈٹ بانی نیا پاکستان ، عمران خان نیازی کو جائے گا۔۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

UNHRC Failure about Pakistani atrocities against Gilgit Baltistan. BNF

حق خودارادیت. Right of self determination

Gilgit: Schedule-four list released, More than 38 activists placed including Shokoor Khan Adv from Ghizer.