کیا گلگت بلتستان میں عوام کو فراہم کیا جانے والا پانی جراثیم سے پاک ہے؟




  
  • تحریر:شیرین کریم


گلگت کونوداس کے رہائشی فقیر کے گھر میں اکثر خوشی کا سما ء رہتا تھا۔آج گھر میں مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا ۔چار سالہ احمد بھی افسردہ اپنی امی کے گھٹنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خاموش تھا۔ گھر کے دروازے پر نظریں جمائے ہر آہٹ پر چونکتا۔شاید انہیں کسی کی آمد کا بے صبری سے انتظار ہے۔
صبر کا دامن ٹوٹا تو اپنی ماں سے پوچھا!" اماں! آج ابا ابھی تک نہیں آئے ۔ہر دن تو جلدی آتے تھے"۔ماں نے سرد آہ بھری اور حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ" آپ کے ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی طبی معائنے کے لئے ہسپتال گئے ہوئے ہیں"
ایک سال قبل گھر کے سربراہ فقیر اچانک یرقان کے مرض میں مبتلا ہوئے ۔بیماری نے نہ صرف ان کی جمع پونجی اور روزگار چھین لیا بلکہ گھر کی خوشیوں کو بھی ماند کر کے رکھ دیا تھا۔
فقیر طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے کمزور اور لاغر ہوتے جارہے تھے۔ا اچانک تکلیف زیادہ ہونے پر علاج معالجے کی غرض سے قریبی ہسپتال کا رخ کر لیا۔مرض کی وجوہات جاننے اور علا ج کی غرض سے ڈاکٹروں نے انہیں ہسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا۔
ٹیسٹ مکمل ہونے پر ڈاکٹر ز نے فقیر کو یرقان کا مریض قرار دیا گیا۔تکلیف کم ہونے اور علاج کی غرض سے مہنگے نسخے لکھ کر دیئے گئے۔فقیر کے بقول "اپنے علاج کی خاطر جمع پونجی خرچ کر چکا ہوں۔مگر ابھی تک مکمل طور پر شفایاب نہیں ہو سکا ہوں"
سرکاری ہسپتال کے ایمرجنسی میں ڈیوٹی کرنے والے ڈاکٹر محمد علی شاہ نے بتایا کہ" صرف فقیر ہی نہیں ان جیسے سینکڑوں مریض گندے پانی کے استعمال سے مختلف امراض میں مبتلا ہیں۔میرے پاس آنے والے مریضوں میں اندازاًساٹھ فیصد سے زائد صرف آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں یرقان ،ہیضہ،اور پیٹ کی امراض کا شکار ہو کر آتے ہیں. شایدپینے کے پانی میں جراثیم کش ادویات کی مطلوبہ مقدار نہیں ملائی جا رہی ہے۔جس کی وجہ سے پانی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے"
محکمہ تحفظ ماحولیات کے ڈائریکٹر شہزاد شگری نے بھی تصدیق کی کہ گلگت اور گردو نواح میں پینے کا پانی صاف نہیں ہے ان کا کہنا تھا کہ" گلگت شہر کے واٹر چینلز میں کھیتوں سے گزر کر آنے والا گندا پانی شامل ہو رہا ہے۔جو چینلز کے ذریعے واٹر ٹینک پھر وہاں سے سپلائی لائنوں سے ہوتے ہوئے گھروں تک پہنچتا ہے ۔صاف پانی فراہمی کے لئے ہنگامی اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو بہت بڑے انسانی المیے کا خدشہ ہے۔گلگت شہر میں بنائے گئے واٹر فلٹریشن پلانٹس بھی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب ناکارہ ہو چکے ہیں۔پارٹس ٹھیک نہیں ہیں اور پانی صاف کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں"
اسسٹنٹ کمشنر گلگت حسین احمد رضا کا کہنا تھا کہ" واٹر فلٹریشن پلانٹس کا جائزہ لے کر رپورٹ مرتب کر لی گئی ہے۔انتظامیہ اور واسپ مقامی کمیونٹی کے تعاون سے فلٹریشن پلانٹس کی دیکھ بھال اور مرمت یقینی بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے گی"
ایکسئین واسا محمد یونس کا کہنا تھا کہ" شہریوں کو فراہم کئے جانے والے پانی میں جراثیم کش دوا کلورین کی مطلوبہ مقدار شامل کی جا رہی ہے۔52فلٹریشن پلانٹس میں سے صرف ایک یا دو میں خرابی موجود ہے۔جس کی مرمت کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔باقی تمام فلٹریشن پلانٹس سے صاف ستھرا پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔تمام فلٹریشن پلانٹس میں چوکیدار تعینات ہیں جو اپنے مقررہ اوقات میں عوام کو پانی فراہم کر رہے ہیں۔فلٹریشن پلانٹس سے زہریلے پانی کی فراہمی کی رپورٹس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔کسی کے کہنے پر آنکھیں بند کر کے فلٹریشن پلانٹس کو بند نہیں کر سکتے ہیں۔اگر کسی کے پاس کوئی حقائق پر مبنی مواد ہے تو وہ ادارے کے ساتھ شئیر کرے تاکہ فوری طور پر ایکشن لیا جا سکے۔اور اس فلٹریشن پلانٹس کو سیل کر کے اس کی مرمت یقینی بنائی جا سکے"
ماہرین کے مطابق گلگت بلتستان صاف پانی کے ذخائر سے مالا مال خطہ ہے۔مگر یہاں کے شہریوں میں گندے پانی کے استعمال سے پھیلنے والی امراض میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔واٹر فلٹریشن پلانٹس کی حالت زار بھی قابل رحم ہے۔
فقیر کے گھر میں افسردگی کا عالم ایک سال گزرنے کے باوجود بھی جوں کا توں ہے۔فقیر کے بقول "ڈاکٹرز نے آرام کا مشورہ دیا ہے لیکن اپنے گھر والوں اور بچے کی چہرے پر خوشی دیکھنے کی خاطر آرام کو ٹھکرا کر غم روز گار میں دوبارہ لگنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔میری التجاء ہے کوئی بھی صاف پانی کے نام پر دھوکہ نہ کھائے۔گھر میں پانی ابال کر ہی استعمال کرے اور اپنے طور پر پانی میں جراثیم کش ادویات ملائیں تاکہ میری طرح کوئی لاچار ی کی زندگی گزارنے سے بچ سکے"۔

Comments

Popular posts from this blog

UNHRC Failure about Pakistani atrocities against Gilgit Baltistan. BNF

حق خودارادیت. Right of self determination

Gilgit: Schedule-four list released, More than 38 activists placed including Shokoor Khan Adv from Ghizer.